عمران خان عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کریں گے
تحریک عدم کہاں تک پہنچی ۔۔پارٹیاں کہاں کھڑی ہیں ؟ عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ وزیر اعظم محتاط کیوں ہوگئے؟ کس کے مشورے پر عمل کیا ؟ وزیر اعظم جارحانہ سے حقیقت پسندانہ رویے پر کیوں آگئے؟ حکومت کے اتحادی کیا فیصلہ کرسکتے ہیں ؟
اتحادی پارٹیاں جہاں بھی کھڑی ہوں ۔کم ازکم اتنا طے ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ نہیں کھڑیں۔ق لیگ کے بارے میں جو اشارے مل رہے ہیں وہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہوگی ۔اس کو مستقبل کی ضمانت ان کو آصف زرداری سے چاہئے۔ویسے اتحادی جماعتوں کو اس وقت وزیر اعظم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا ،رہی بات جلسوں کی تو اسمبلی میں آکر ووٹ جلسوں والوں نے نہیں ۔اتحادی ناراض ہیں تو ان کو تین سال میں کچھ نہیں ملا ۔اگر وہ پہلے اتحادیوں کو کچھ نہیں دے سکے تو آپ کیا دیں گے۔وزیر اعظم عثمان بزدار کو فارغ بولڈ فیصلہ کرسکتے تھے۔لیکن وہ کریں گے نہیں ۔
No confidence motion : challenges for Pm Imran khan
سوموار کو چودھری برادران کا گھر اتحادیوں کا مرکز بن رہا ہے،سبھی اتحادی یہاں اکٹھے ہورہے ہیں،سوائے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے سبھی جمع ہوں گے،توقع ہے کہ مل کر فیصلہ کریں گے،بلوچستان سے ’’باپ ‘‘بھی شریک ہوگی ۔بدن بولی سے لگتا ہے کہ وہ حکومتی مفادات کے بجائے ریاستی مفادات کے ساتھ کھڑے ہوں گے،اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف ہوئے تو وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی ہوں گے،قومی اسمبلی کی سپیکر شپ پیپلز پارٹی کو دی جائے گی ۔مولانا اسعد کو ڈپٹی سپیکر شپ دی جاسکتی ہے۔اپوزیشن کی نمبر گیم پوری ہے اس لئے مطمئن نظر آتی ہے۔
جلسے جلوسوں سے تحریک عدم اعتماد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،جلسوں سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پارٹی فعال ہوجاتی ہے،اصل چیلنج کو دیکھنا چاہئے،تحریک عدم اعتماد کو عمران خان نے ایڈریس نہیں کیا ۔حکومت کے اتحادیوں کا حکومت کی طرف جھکائو ضرور ہے مگر ابھی تک انہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم اس وقت اتحادیوں کو کیا دے سکتے ہیں ۔پارٹی ،پنجاب اور اتحادیوں کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔اگر اتحادی جماعتیں اپوزیشن میں جاتی ہیں تو یہ غیر فطری اتحاد ہوگا ،یہ سیاسی مصلحت کے تحت ہوگا ۔ن لیگ اور ق لیگ فطری اتحادی نہیں۔اسی طرح پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا یہی مسئلہ ہے۔عمران خان جاتے ہیں تو ان کے اپنے جھگڑے شروع ہوجائیں گے۔یہاں کوئی ضامن نہیں ۔جھگڑا ہوا تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔سیاسی غیر یقینی برقرار رہے گی ۔جو کام اس وقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کررہے ہیں وہی کام عمران خان کریں گے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ اگر نواز شریف یا شہباز شریف اعلان کردیں کہ پرویز الٰہی ہمارے وزیر اعلیٰ ہوں گے اور 2023 تک وہی وزیر اعلیٰ رہیں گے تو گیم اوور ہوجائے گی ،میری اطلاع کے مطابق ن لیگ ابھی تک اس معاملے میں تیار نہیں ۔پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی ۔عمران خان دبائو میں عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کریں گے۔
Comments
Post a Comment